عالمی ثالثی عدالت نے سندھ طاس معاہدے کا فیصلہ کر دیا ا
سندھ طاس معاہدے کی معطلی: پاکستان انڈیا کے بیچ اس تنازع پر ثالثی عدالت کے فیصلے کا کیا مطلب ہے؟
![]() |
جمعے کے روز اپنے فیصلے میں ثالثی عدالت نے کہا کہ انڈیا کا سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے کا اقدام عدالت کی قانونی حیثیت پر اثر انداز نہیں ہو سکے گا۔
یاد رہے کہ ستمبر 1960 میں انڈیا اور پاکستان نے دریائے سندھ اور معاون دریاؤں کے پانی کی تقسیم کے لیے عالمی بینک کی ثالثی میں نو برس کے مذاکرات کے بعد سندھ طاس معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدے کا بنیادی مقصد وادی سندھ کے دریاؤں کے پانی کو دونوں ممالک کے درمیان منصفانہ طریقے سے تقسیم کرنا تھا۔
تب سے اب تک دریاؤں کی تقسیم کا یہ معاہدہ کئی جنگوں، اختلافات اور جھگڑوں کے باوجود 65 برس سے اپنی جگہ قائم ہے۔ تاہم رواں برس اپریل میں انڈیا نے پہلگام حملے کے تناظر میں پاکستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔
آربٹریشن کورٹ کے حالیہ فیصلے کا جہاں پاکستان نے خیر مقدم کیا ہے وہیں انڈیا نے اسے مسترد کیا ہے۔
گروہوں کے ساتھ رابطوں والے لوگوں سے ہے۔ تاہم ایسے میں انڈیا پر بیرونی دُنیا سے یہ دباؤ آئے گا کہ یہ آپ کیا کر رہے ہیں آپ کی لڑائی تو فوج کے ساتھ ہے تو آپ عام لوگوں کو کیوں پریشان اور تکلیف پہنچانے والے اقدامات لے رہے ہیں۔‘
نیروپما سُبرامنین کا کہنا ہے کہ انڈیا کے لیے یہ بات سب سے بڑا چیلنج ہوگی اور دیکھنا ہو گا کہ انڈیا کی حکومت کیسے نمٹے گی۔
دوسری جانب پاکستان کے سابق ایڈیشنل انڈس واٹر کمشنر شیراز میمن نے انڈیا کے اس موقف کو درست قرار دیا کہ یہ عدالت متنازع ہے۔
ان کے مطابق چونکہ سات رکنی عدالت مکمل ہونے کے لیے انڈیا نے اس پر اپنے دو ثالث مقرر ہی نہیں کیے اس لیے ’یہ مستقل ثالثی عدالت نہیں بلکہ ایک متنازع اور یکطرفہ عدالت ہے۔‘
شیراز میمن نے دعویٰ کیا کہ ’عالمی بینک بھی اس رائے کا حامل تھا کہ کشن گنگا اور رتلے پن بجلی منصوبوں سے متعلق تکنیکی معاملات کو ثالثی عدالت کی بجائے غیر جانبدار ماہر کو بھیجا جانا چاہیے تھا۔‘
ان کے مطابق بالآخر پاکستان کے مسلسل نو سالہ اصرار کے بعد عالمی بینک نے ثالثی عدالت قائم کی اور ساتھ ہی انڈیا کے اصرار پر غیر جانبدار ماہر کو بھی مقرر کیا لیکن اس نامناسب طریقے سے نامکمل ثالثی عدالت کی تشکیل نے ’انڈیا کو ناخوش کیا۔
سندھ طاس معاہدہ کیا ہے؟
انڈیا اور پاکستان نے دریائے سندھ اور معاون دریاؤں کے پانی کی تقسیم کے لیے عالمی بینک کی ثالثی میں نو برس کے مذاکرات کے بعد ستمبر 1960 میں سندھ طاس معاہدہ کیا تھا۔
اس معاہدے کے تحت انڈیا کو بیاس، راوی اور دریائے ستلج کے پانی پر مکمل جبکہ پاکستان کو تین مغربی دریاؤں سندھ، چناب اور جہلم کے پانی پر اختیار دیا گیا تھا تاہم ان دریاؤں کے 80 فیصد پانی پر پاکستان کا حق ہے۔
انڈیا کو مغربی دریاؤں کے بہتے ہوئے پانی سے بجلی پیدا کرنے کا حق ہے لیکن وہ پانی ذخیرہ کرنے یا اس کے بہاؤ کو کم کرنے کے منصوبے نہیں بنا سکتا۔ اس کے برعکس اسے مشرقی دریاؤں یعنی راوی، بیاس اور ستلج پر کسی بھی قسم کے منصوبے بنانے کا حق حاصل ہے جن پر پاکستان اعتراض نہیں کر سکتا۔
معاہدے کے تحت ایک مستقل انڈس کمیشن بھی قائم کیا گیا جو کسی متنازع منصوبے کے حل کے لیے بھی کام کرتا ہے تاہم اگر کمیشن مسئلے کا حل نہیں نکال سکتا تو معاہدے کے مطابق حکومتیں اسے حل کرنے کی کوشش کریں گی۔
اس کے علاوہ، معاہدے میں ماہرین کی مدد لینے یا تنازعات کا حل تلاش کرنے کے لیے ثالثی عدالت میں جانے کا طریقہ بھی تجویز کیا گیا ہے۔
Comments
Post a Comment