اردن کے شاہی خاندان اور اس کے اسرائیل سے روابط کی دلچسپ کہانی

 اردن کے شاہی خاندان اور اس کے اسرائیل سے روابط کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟

بل کلنٹن ،شاہ عبد اللہ
جغرافیائی اعتبار سے اُردن مشرقِ وسطیٰ میں ایک اتنہائی حساس مقام پر موجود ہے۔ اُردن کی سرحدیں سعودی عرب، عراق اور شام کے علاوہ اسرائیل اور غربِ اردن کے ساتھ بھی لگتی ہیں۔ اس کی بحیرۂ احمر کے ساحلی پٹی صرف 16 میل پر محیط ہے۔


ورلڈ بینک کے مطابق اُردن کی آبادی ایک کروڑ 10 لاکھ سے زیادہ ہے جبکہ اس میں 90 فیصد سے زیادہ افراد عرب ہیں اور یہاں کی سرکاری زبان بھی عربی ہے۔ اُردن میں فلسطین اور شام سے بڑے پیمانے پر افراد ہجرت کر کے آ چکے ہیں۔


ملک میں بادشاہت کا راج ہے اور اس وقت شاہ اُردن عبداللہ دوئم ہیں۔ یہ ہاشمی گھرانہ (الھاشیمون) ملک کو سنہ 1946 میں برطانیہ سے باقاعدہ آزادی ملنے کے بعد سے ملک پر حکمرانی کر رہا ہے۔


بادشاہ عبداللہ دوئم کی سرکاری ویب سائٹ میں ہاشمی خاندان کی تاریخ اور اس کا شجرہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے جس کے مطابق شاہ اردن کا شجرہ پیغمبرِ اسلام اور ان کے پردادہ ہاشم سے جا ملتا ہے۔


20ویں صدی سے پہلے چار سو سال تک اس علاقے پر سلطنتِ عثمانیہ کا راج تھا تاہم پھر پہلی عالمی جنگ کے دوران سلطنتِ عثمانیہ کا اتحادی ممالک کے مخالف جنگ لڑنے کے فیصلے نے مکہ کے اس وقت کے امیر مکہ شریف حسین بن علی کو سلطنتِ عثمانیہ سے آزادی حاصل کرنے کا جواز فراہم کیا جو برطانیہ سمیت دیگر اتحادی قوتوں کی معاونت کے باعث سنہ 1916 میں عرب بغاوت کی شکل میں پورا ہوا۔


سنہ 1917 میں اینگلو عرب افواج نے اس خطے کا کنٹرول سنبھال لیا جس میں فسلطین کا علاقہ بھی شامل تھا اور سنہ 1921 میں فلسطین کو اس خطے سے الگ کر کے 'ٹرانس جارڈن' کی بنیاد رکھی گئی اور عبداللہ جو بعد میں اُردن کے پہلے بادشاہ بنے، کو حکمرانی سونپ دی گئی۔


برطانیہ کی جانب سے متعدد مرتبہ مکہ کے امیر شریف حسین بن علی سے متنازع بیلفور ڈیکلریشن پر دستخط کروانے اور اس کے عوض ایک بھاری رقم دینے کی کوشش کی گئی مگر وہ نہ مانے۔ اس کے بعد اتحادی ممالک کی جانب آلِ سعود کے ساتھ اتحاد کر لیا گیا۔


بیلفور ڈیکلریشن دراصل برطانیہ کی جانب سے فلسطین کو یہودیوں کی رہائش کے لیے ایک ملک فراہم کرنے کے لیے بنایا گیا متنازع دستاویز تھا۔


سنہ 1946 تک اس خطے پر برطانیہ کے زیرِ انتظام حکومت چلتی رہی تاہم سنہ 1946 میں یہ ایک خودمختار ریاست بنی اور اسے 'المملکت الاردنیۃ الہاشمیۃ' کہا جانے لگا۔


سنہ 1948 سے 1973 کے درمیان اُردن اسرائیل سے چار جنگیں لڑ چکا ہے جن میں پہلی عرب اسرائیل جنگ 1948، 1967 کی جنگ حرب، 1967 سے 70 کے درمیان لڑی گئی حرب الاستنزاف اور 1973 کی یوم کپور جنگ شامل ہیں۔


تاہم امریکی صدر بِل کلنٹن کے دور حکومت میں سنہ 1994 میں اُردن اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدہ طے پا گیا تھا جس کے باعث کبھی کشیدگی میں اضافہ نہیں ہوا۔


حکومتِ اردن کی ویب سائٹ کے مطابق اردن کے جھنڈے کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے، یہ جھنڈے سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف عرب بغاوت کے جھنڈے سے متاثر ہے۔


اس میں تین مختلف رنگ اور ایک سرخ رنگ کی مثلث یا تکون (ٹرائی اینگل) موجود ہے جبکہ جھنڈے پر سات کونوں والا ستارہ بھی موجود ہے۔

ملکہ رانیہ
اس ستارے کا ہر ایک کنارہ مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کی پہلی سورۃ سورۃ الفاتحہ کی سات آیات کی ترجمانی کرتا ہے۔ یہ ستارہ ہی اس جھنڈے کو فلسطین کے جھنڈے سے الگ کرتا ہے۔


جھنڈے پر موجود سرخ تکون یا ٹرائی اینگل جبکہ تین مستطیل (ریکٹینگلز) اردن کی تاریخ میں اس پار حکمرانی کرنے والی تین خلافتوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ سیاہ مستطیل خلافتِ عباسیہ، سفید خلافتِ بنو امیہ جبکہ سبز خلافتِ فاطمیہ کی نمائندگی کرتا ہے۔


غزہ جنگ کے دوران ان روابط میں کیا تبدیلی آئی؟

امریکی تھنک ٹینک دی ایٹلانٹک کونسل کی جانب سے رواں برس ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سات اکتوبر سنہ 2023 کے بعد سے غزہ جنگ کو دو برس ہونے پر اردن نے متعدد ایسے سفارتی اقدامات کیے ہیں جن سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ان کا اسرائیل کے ساتھ رشتہ تناؤ کا شکار ہے۔


اردن نے نومبر 2023 میں متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے ساتھ ایک توانائی منصوبے سے کنارہ کشی اختیار کی تھی، اسرائیل کے لیے اپنے سفیر کو واپس بلایا تھا، مئی 2024 میں اسرائیلی سفیر کو اردن سے بے دخل کر دیا تھا اور اسرائیل پر ہتھیاروں کی درآمد کرنے پر پابندی عائد کی تھی۔


جنوری 2025 میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے خاتمے کے بعد سے بادشاہ عبداللہ اور اردن کے وزیرِ خارجہ نے اسرائیل کو اپنے بیانات میں تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور فلسطینیوں کی غزہ سے ہمسایہ ممالک میں منتقلی پر تنقید کی ہے۔


رواں برس ٹرمپ سے ملاقات کے بعد اردن کے بادشاہ عبداللہ نے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے فلسطینیوں کو اردن منتقل کرنے کی تجویز کو مسترد کیا تھا۔


ملاقات کے بعد ایکس پر ایک پوسٹ میں انھوں نے کہا کہ 'اردن غزہ اور غربِ اردن میں فلسطینیوں کی منتقلی' کے خلاف 'ثابت قدم' ہے۔ یہ عرب دنیا کا ایک مؤقف ہے۔'


خیال رہے کہ صدر ٹرمپ رواں برس یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ اردن اور مصر کے لیے امداد روک دیں گے اگر انھوں نے غزہ سے فلسطینیوں کی اپنے ملکوں میں منتقلی سے اتفاق نہ کیا۔


تاہم رپورٹ کے مطابق فوجی اور انٹیلیجنس کی سطح پر دونوں ممالک کے درمیان روابط اب بھی قائم ہیں۔ اردن امریکہ کے ساتھ مل کر ایران کی جانب سے اسرائیل پر فائر کیے گئے میزائلوں اور ڈرونز کو تباہ کرتا رہا ہے۔


رواں برس اردن، بحرین، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور مصر کے اہلکاروں نے اسرائیلی ڈیفنس فورسز کے اس وقت کے چیف آف سٹاف اور امریکی سینٹ کام کے کمانڈر سے ملاقات کی تھی اور خطے کی سکیورٹی میں تعاون کے حوالے سے بات کی تھی۔


اسرائیل اور اردن کے حکام خفیہ طور پر ایک دوسرے سے ملاقاتیں کرتے رہے ہیں جن میں وہ خطے میں سکیورٹی خدشات پر بات چیت کی تھی جن میں بشارالاسد کی شام میں حکومت کا خاتمہ اور اسرائیل کی وہاں فوجی مہم شامل ہے

Comments

Popular posts from this blog

🕊️ نوید ظفر: اغوا کے بعد بازیابی مگر زندگی کی واپسی نہ ہو سکی

بلاول سے شادی کے لئے لڑکی تیار،سنسنی خیز انکشافات سامنے آگئے